Add To collaction

ایک دردناک کہانی

ایک دردناک کہانی

ایک بہن کی زبانی 

  سر میرا تعلق لیاقت پور کے ایک اچھے خاصے کھاتے پیتے  گھرانے سے ہے۔۔۔

میرے والد اپنے گاٶں کے نامی گرامی زمیندار ہیں اِس لٸے پیسے وغیرہ کا کبھی کوٸی مسلہ نہیں رہا تھا۔۔۔۔

مجھ سے بڑے دو بھاٸی ہیں جنہوں نے آٹھ آٹھ  کلاسیں پڑھ کے سکول کو خیرآباد کہہ دیا۔۔۔

کہ ہم نے کون سا نوکری کرنی ہے اور والد صاحب نے بھی اُن کی  اِس بات پہ  زیادہ اعتراض نا کیا کے بات تو اُن کی ٹھیک ہے اپنی زمین  کافی ہے کون سی نوکری کرنی ہے۔۔۔۔

میں اپنے  چھوٹے بھاٸی سے آٹھ سال چھوٹی تھی۔۔

اس  لٸے سبھی میرے لاڈ اٹھاتے اور ہر  بات مان لیتے خاص طور بابا مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔۔

دماغی طور پہ میں بہت ذہین تھی اور پڑھنے کا شوق بھی بہت زیادہ تھا میٹرک میں میرے  بہت اچھے نمبر آٸے تو میں نے بابا سے آگے پڑھنے کی ضد کی۔۔۔

بابا نے میرے تایا اور چاچو کی مخالفت کے باوجود مجھے ایف ایس سی میں ایڈمیشن دلوا دیا۔۔۔ 

کالج گاٶں سے دور ہونے کی وجہ سے بابا نے بھاٸی کے ذمہ لگایا کہ تم سدرہ کو کالج چھوڑ کے بھی آٶ گے اور لے کے بھی آٶ گے۔۔۔

وقت گزرتا رہا اور  میں نے ایف ایس سی مکمل کر لیا۔۔

میرے ایف ایس سی میں بھی  بہت اچھے نمبر آٸے اِس لٸے بابا بہت خوش ہوٸے اور ایک بار پھر سب کی مخالفت کے باوجود میرے شوق کو دیکھتے ہوے  مجھے سٹڈی جاری رکھنے دی گٸی۔۔۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا میں بنا لڑکھڑاٸے کامیابی کی طرف بڑھتی  جا رہی تھی۔۔۔

میرے بابا کے مجھے پڑھانے کے فیصلے پہ پہلے تو باقی عزیز و اقارب نے بہت تنقید کی۔۔۔۔

لیکن جیسے جیسے میں ثابت قدمی  سے آگے بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے باقی لوگوں میں بھی حوصلہ پیدا ہوتا جا رہا تھا۔۔۔
اور میری فیملی کی کافی لڑکیوں نے شہر کے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔۔
ہماری برادری میں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا

میرے بابا بہت خوش تھے کہ میری بیٹی سب کے لٸے مشعلِ راہ بنتی جا رہی ہے۔۔۔۔

وقت پر لگا کے اڑ رہا تھا اور پتہ ہی نہ چلا کہ میں کب بی ایس آٸی ٹی میں آ گٸی۔۔۔

اب سٹڈی کے لٸے لیپ ٹاپ بہت ضروری تھا لیکن بابا لیپ ٹاپ لے کے دینے کے حق میں نہیں تھے اور انٹرنیٹ کے ساتھ تو بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔

اس لٸے طے یہ پاپا کہ میرے تایا ابو جن کی فیملی بہاولپور سٹی میں رہاٸش پزیر تھی۔۔۔

جن کا بڑا  بیٹا  ایم فل کر رہا تھا مجھے تایا کے گھر رہنا ہو گا اور اپنے کزن کے لیپ ٹاپ پہ اپنا ورک کرنا ہو گا شام دو سے تین گھنٹے۔۔۔۔۔

میں خوش تھی کہ چلو کسی بھی طرح صحیح پڑھنے کی اجازت تو ملی۔۔

ایڈمشن کے بعد بی ایس آٸی ٹی کی کلاسز شروع ہوتے ہی مجھے بہاول پور بھیج دیا گیا۔۔۔۔

ایک نجی کالج جو ساتھ ہی  یونیورسٹی لیول تک تھا وہاں صرف گرلز ہی طالبات تھیں اس لٸے بابا بھی قدرے مطمئن تھے۔۔۔۔

مجھے وین لگوا کے دے دی گٸی یونیورسٹی آنے جانے کے لٸے۔۔۔

یونیورسٹی کے ماحول کا بھی ایک الگ ہی مزہ ہے نا روک نہ ٹوک فل  ہنسی مزاق دل کرے تو کلاس لےلو دل کرے تو نا لو۔۔۔

شروع کے دن میں بہت سہمی سہمی رہی لیکن جلد ہی میں اپنی کلاس میں ایک ذہین طالبہ کے طور پہ پہچانی جانے  لگی۔۔۔

میں نے بی ایس آٸی ٹی کے فاٸنل پیپر دیٸے اور گھر آ گٸی۔۔۔

گھر آتے ہی گھر والوں نے میرے لٸے رشتہ دیکھنا شروع کر دیا اور سب سے پہلی نظر میرے تایا کہ بیٹے پہ گٸی جو اب پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔۔۔۔

تایا کو بھی کوٸی اعتراض نہیں تھا کیونکہ کہ اپنی فیملی میں واحد لڑکی میں ہی تھی 
جو اتنی پڑھی لکھی تھی اور اپنے ساتھ جہیز میں  زمین بھی اچھی خاصی لاتی تایا نے خوشی خوشی میرا رشتہ قبول کیا۔۔۔۔۔

کچھ دن کی فارمیلٹی کے بعد ہماری منگنی کر دی گٸی اور طے  یہ پایا کے دو سال بعد لڑکے کی پی ایچ ڈی مکمل ہوتے ہی شادی کر دیں گے۔۔

میرا رزلٹ آیا تو میرے بی ایس آٸی ٹی  میں بہت شاندار نمبر آٸے اور بہت ساری یونیورسٹیز  کی طرف سے  مجھے فری ایڈمشن کی آفر  ہوٸی۔۔

لیکن بابا اب اور پڑھانے کے حق میں نہیں تھے لیکن مجھے پڑھنا تھا پڑھاٸی میرا جنون تھی۔۔۔

میں کچھ بننا چاہتی تھی۔۔۔

اِس لٸے میں نے اپنے منگیتر کو ڈھال بنانے کا فیصلہ کیا اور اُس سے فون پہ بات کر کے ساری بات اُسے بتاٸی اور یہ کہا کہ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں۔۔۔
پلیز تم تایا ابو  سے بات کرو اور وہ  بابا کو کہیں مجھے  پڑھنے دیا جاٸے۔۔۔

سعد میرے منگیتر  نے مجھ سے پرومس کیا کہ وہ ہر صورت ابو  کو  مناٸے گا کہ  وہ میرے بابا  سے بات کریں۔۔۔
میرا سابقہ ریکارڈ  دیکھتے ہوٸے اور تایا کے زور دینے پہ مجھے آگے پڑھنے کی اجازت مل گٸی۔۔۔۔۔

اور پھر مجھے ایم ایس میں داخلہ لے کے دے دیا گیا 

سدرہ اتنی بات کر کے خاموش ہو  گٸی۔۔۔

میں نے اُس کے چہرے کو غور سے دیکھا تو اب وہاں پہ خوف و ہراس اور پچھتاوا نظر آ رہا تھا۔۔۔

ساتھ ساتھ اُس کے  چہرے پہ شدید  اذیت  بھی تھی جیسے سوچ رہی ہو
 کہ کاش میں ایڈمشن نہ لیتی تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔۔۔

سدرہ تم ٹھیک ہو نا بس کرو مجھے نہیں جاننا اور کچھ۔۔

تم آرام کرو ہم اِس پہ پھر کبھی بات کریں گے۔۔۔

نہیں  شاہ سر میرے دل پہ بہت بوجھ ہے ۔۔۔

مجھے آج اس اذیت سے آزاد ہونے دیں۔۔۔۔

میں نہیں چاہتی کہ میرے مر جانے کے بعد کبھی آپ کے دل میں یہ خیال آٸے کہ پتہ نہیں کیسی تھی۔۔۔
گھر سے کیوں بھاگی۔۔۔

سدرہ پاگل ہو تم میرے دل میں ایسا خیال کبھی  کیوں آٸے گا 
مجھے پتہ ہے تم بہت اچھی لڑکی ہو۔۔۔۔

شاہ سر آپ وعدہ کر چکے ہیں۔۔۔

اور ابھی آپ نے میری تین خواہشیں اور پوری کرنی ہیں سدرہ نے مجھے یاد دلاتے ہوٸے پھر سلسلہ وہیں  سے جوڑا جہاں سے ختم ہوا تھا۔۔۔

جب میں دوبارہ بہاولپور گٸی تو اب مجھے تایا کے گھر کی بجاٸے یونیورسٹی کے ہی گرلز ہاسٹل میں بھیج دیا گیا۔۔۔

کیونکہ پاپا کا خیال تھا کہ منگنی کے بعد لڑکی لڑکے کا ایک گھر میں رہنا ٹھیک نہیں تھا۔۔۔

ہاسٹل کی لاٸف ہی الگ تھی رات دو بجے تین بجے تک گپیں لگانا فن کرنا لڑاٸیاں کرنا یا کوٸی گیم کھیلنا اور پھر صبح دیر تک سو کے پہلے لیکچر مس کر دینا۔۔۔۔

میری کچھ روم میٹ چھے سال سے یونیورسٹی ہاسٹل میں رہ رہی تھیں  اور ہر کام میں فل ایکسپرٹ تھیں۔۔

وہ سب رات دیر تک اپنے اپنے بواٸے فرینڈز کے ساتھ فون پہ لگی رہتیں  کچھ آڈیو  کال پہ اور کچھ  ویڈیو کال پہ۔۔۔

تب میں سونے کی کوشش کرتی لیکن اُن کے شور میں نیند نا آتی تو اٹھ کے پڑھنا شروع کر دیتی۔۔۔
تب سب بہت ہنستیں  مجھ پہ۔۔۔

اور کہتیں تم بھی بنا لو کوٸی فرینڈ   زندگی میں سکون آ جاٸے گا۔۔۔
لیکن مجھے ان فضول کاموں سے دلچسپی نہیں تھی۔۔

ہر ویک اینڈ پہ گاٶں سے بھاٸی مجھے لینے آ جاتا اور ویک اینڈ میں فیملی کے ساتھ گاٶں میں گزارتی۔۔۔

ابھی مجھے یونیورسٹی میں آٸے ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ سیکم لیپ ٹاپ میں سب کو اپنا  نام لکھوانے کا کہا گیا میں نے بھی نام لکھوا دیا۔۔۔

میرے سابقہ تعلیمی ریکارڈ کو دیکھتے ہوٸے مجھے گورنمنٹ  کی طرف سے  لیپ ٹاپ مل گیا۔۔۔

جب  ویک اینڈ پہ میں گھر آٸی تو لیپ ٹاپ بھی ساتھ لاٸی اور بابا کو بتایا کہ مجھے لیپ ٹاپ ملا ہے اور میری سٹڈی کے لیے اب لیپ ٹاپ بہت ضروری ہے مجھے ایوو لے کے دیں۔۔۔

بابا نے میرے منگیتر سے کچھ کنفرمیشن کے بعد مجھے ایوو لے کے دے دی اور ایک ماہ کا پیکج بھی کروا دیا۔۔۔

ویسے تو یونیورسٹی میں واٸی فاٸی تھا لیکن لڑکیوں نے ایوو رکھی ہوٸی تھی کیونکہ واٸی فاٸی کی  سپیڈ کم ہوتی تھی۔۔۔

ویک اینڈ کے بعد میں یونیورسٹی آٸی تو اپنی ایک روم میٹ سے لیپ ٹاپ کو سمجھنے میں ہیلپ مانگی۔۔۔۔۔۔

جو ہر وقت لیپ ٹاپ پہ لگی رہتی تھی 
اُس نے بہت خوش دلی سے  مجھے لیپ ٹاپ سکھانے کی حامی بھر لی اور پھر کچھ ہی دن میں مجھے اچھا خاصا لیپ ٹاپ چلانا آ گیا۔۔۔

اب جب سب لڑکیاں رات کو اپنے اپنے بوائے فرینڈ کو کال کرتی یا ویڈیو کال کرتی تو میں کوٸی مووی یا ڈرامہ لگا کے دیکھنے لگ جاتی۔۔۔۔

بعض اوقات ڈرامہ مووی سرچ کرتے ہوٸے ایسے ہیجان خیز مناظر سامنے آ جاتے کہ تن بدن میں آگ لگ جاتی۔۔۔

یہ احساس تب اور بڑھ جاتا جب میری روم میٹ ہنس ہنس کے مجھے بہن جی کہتی اور خود بڑے بولڈ انداز میں مختلف لڑکوں سے گپیں لگاتی۔۔۔

میں نے کافی بار محسوس کیا کہ تین چار لڑکیاں سب کے  سونے کے بعد لیپ ٹاپ  بستر میں رکھ لیتی ہیں اور ایسا لگتا تھا کہ وہ کپڑے اتار رہی ہیں۔۔۔
لیکن تب میں اِسے اپنا وہم سمجھ کے اگنور کر دیتی۔۔۔

کچھ ہفتے اِسی کیفیت میں گزر گٸے تبھی میری ایک روم میٹ نے بقول اس کے مجھ پہ ترس کھاتے ہوٸے مجھے اپنے نمبر پہ فس بک آٸی ڈی بنا کے دی اور میسنجر انسٹال کر کے دیا اور فیس بک  یوز کرنے کا طریقہ سکھایا۔۔۔

کچھ دن بعد ہی میں فیس بک چلانے میں بہت ماہر ہو گٸی اب تو حالت یہ تھی کہ صبح شام فیس بک اور میسنجر۔۔۔

مختلف لڑکوں سے باتیں کر کے بہت اچھا لگتا۔۔۔

جب لڑکے میری پوسٹ پہ آ کے میری تعریف کرتے دس دس کمنٹ ایک ایک لڑکا کرتا تب میں خود کو ہواٶں میں اڑتا محسوس کرتی۔۔۔۔

میں اگر لِکھ دیتی کہ طبیعت خراب ہے تو میری پوسٹ پہ سیڈ کمنٹ اور سیڈ ریکٹ کے انبار لگ جاتے۔۔۔

لڑکے انبکس آ کے میری خریت پوچھتے مجھے اپنا خیال رکھنے کی تلقین کرتے۔۔۔

تب مجھے لگتا کہ میں کسی ریاست کی شہزادی ہوں اور یہ سب میری ریاعا ہے۔۔۔

اب میرے لیکچر چھوٹنے لگے زیادہ وقت فیس بک اور میسنجر پہ صرف ہونے لگا۔۔۔۔

پھر میری ایک روم میٹ نے معنی خیز لہجے میں  مجھے کہا کہ تو بہت خوبصورت ہے بہت پیاری ہے تم اس کا فاٸدہ کیوں نہیں اٹھاتی۔۔۔

میں نے نا سمجھنے والے انداز میں کہا سمجھی نہیں میں تم کیا  کہنا چاہتی ہو۔۔۔

اُس نے کہا تو بھی پاگل ہے فری میں انبکس لڑکوں سے باتیں کرتی رہتی ہے۔۔۔
ارے انبکس میں کبھی کسی لڑکے کا نام اپنے ہاتھ پہ لکھ کے سینڈ کر دیا  کبھی کسی کا نام بازو پہ لکھ کے بھیج دیا۔۔

اُن کو پاگل بناٶ ایوو میں ریچارج کرواٶ بیلس منگواٶ اور اگر کوٸی قریب کا مرغا پھنس گیا تو اُس سے پزا برگر بھی منگوا لیا اُسے کہا یونیورسٹی کے گیٹ پہ آ جا اور پھر خود جاکے لے آیا۔۔۔
روم میٹ  نے مجھے آنکھ مارتے ہوٸے کہا۔۔

نہیں مجھے اِن سب کی ضرورت نہیں میرے بابا ہر ویک مجھے پیکج کروا کے دیتے ہیں اور پیسے بھی دیتے ہیں جو مرضی لے لینا۔۔۔۔
سو یہ سب تم لوگوں کو مبارک۔۔۔

ویسے بھی میری منگنی ہو گٸی  ہے میں نے سختی سے جواب دے دیا۔۔۔

تب اس نے ہنستے ہوٸے کہا یار پلیز ہم غریبوں کی مدد کر دیا کرو
تم نا  لینا بیلنس یا لوڈ مجھے دے دینا اور ویسے بھی اب تم یونیورسٹی لاٸف میں ہو۔۔۔

اب نہیں فن کرو گی تو کب کرو گی جی لو کھل کے یہ دو سال اس کے بعد تو جاب  شادی اور بچے ہوں گے۔۔۔

اتنا کہ کر اس نے میرے گال چوم لٸے میرا چہرہ ایک دم شرم سے لال ہو گیا 
میں نے اُسے خود سے دور کرتے ہوٸے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں ہے اس کی۔۔۔

لیکن اب میری وہ روم میٹ آتے جاتے مجھے چھیڑتی رہتی۔۔

کچھ دن ایسے ہی گزرے پھر  میری ایک لڑکے توصیف  سے میسنجر پہ بات شروع ہو گٸی۔۔۔
وہ بہت اچھی پوسٹ کرتا تھا
پورا دن مجھے میسج کرتا  رہتا یا میری پوسٹ پہ لاٸک کمنٹ کرتا رہتا۔۔۔۔۔

بات ہونے کے کچھ دن بعد ہی ہم لوگ ایک دوسرے کے بہت قریب آ گٸے۔۔۔

اب تو ہر وقت بے چینی رہنے لگی اور توصیف سے بات ہونے کا انتظار رہنے لگا۔۔۔
توصیف دن کو ڈیوٹی پہ ہوتا تھا اس لٸے رات کو ہم بات کرتے بارہ بجے تک۔۔

ہم لوگ بہت جلد میسج سے ویڈیو کال پہ آ گٸے  اور اب اچھی باتوں کے بجاٸے ہمارے درمیاں گندی  باتیں  ہونے لگیں ۔۔۔
وہ ہر وقت مجھ سے میرے جسم کی بناوٹ کے بارے میں بات کرتا اور میں جس حصے کا بتاتی وہ وہ فورًا کہتا رکو پہلے مجھے اُس جگہ کِس کرنے دو۔۔۔۔
اور جب وہ ummmmmmmmaaaahhhh لِکھ کے بھیجتا تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔۔۔۔

پھر یہ باتیں اس حد تک بڑھیں کہ ہم نے سب حدیں ویڈیو کال پہ ہی کراس کر لی۔۔

ایک دن توصیف  نے کہا میں تمہیں بنا شرٹ کے دیکھنا چاہتا ہوں 
میرے لٸے یہ بات اچانک تھی اِس لٸے بہت غصہ آیا اور کال بند کر دی تین چار دن توصیف  سے بات نہ کی لیکن دل اتنا بے چین تھا جس کی حد نہیں۔۔۔۔
دل بار بار کہتا بات کرو اُس کی مان لو بات اُس کی۔۔۔

اِس دوران توصیف بار بار کال اور میسج کرتا رہا اور سوری کرتا رہا۔۔۔

پھر توصیف نے مجھے قسم دی کے اگر آج تم نے  کال پک نہ کی تو میں  اپنی کلاٸی کی رگ کاٹ لوں گا۔۔۔۔
تب مجھےکال پک کرنی پڑی۔

اب ہم نے کھل کے ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کر لیا تھا۔
توصیف قطر میں ہوتا تھا اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ گھر آتے ہی میرا رشتہ مانگےگا۔

میں نے بتایا میری منگنی ہو گٸی ہے اور شادی مشکل ہے لیکن اُس نے کہا یہ مجھ پہ چھوڑ دو میں منا لوں گا۔۔۔

کچھ دن ہم نے ایسے ہی محبت میں بات کرتے ہوٸے گزار دیٸے۔۔۔۔
پھر ایک رات میں نے محبت سے مجبور ہو کے ویڈیو کال پہ خود کو توصیف کے سامنے نیوڈ کر دیا۔۔۔

وہ جو جو کہتا گیا میں اتارتی گٸی سردی کی راتیں تھی سب روم میٹ سو رہی تھی۔۔۔۔
اور کمبل میں یہ سب کرنا بہت آسان تھا میں نے لیپ ٹاپ کی روشنی میں توصیف کو اپنا پورا  جسم دکھا دیا۔۔۔۔

اُس نے بھی مجھے اپنی باتوں سے ایسے فیل کروایا کہ جیسے  وہ میرے پاس ہو۔۔۔

اب تو روز ہی یہ سلسلہ چل نکلا جب سب روم میٹ سو جاتی تو ہم ایک دوسرے میں ایسے کھو جاتے جیسے بلکل  پاس ہوں۔۔
مجھ پہ ایک نشہ چھانے لگا توصیف کی باتوں سے۔۔
اب میں گھر بھی آتی تو سٹڈی کے بہانے روم میں ہی لیپ ٹاپ آن کر کے  بیٹھی رہتی۔۔

اور رات ہونے کا ویٹ کرتی رہتی۔۔۔

کچھ ویک کے بعد اب توصیف بہانوں سے مجھے اگنور کرنے لگا کبھی کام زیادہ ہے طبیعت نہیں سہی اور کبھی نیند آٸی ہے۔۔۔

میں جب بھی کہتی مجھے کِس کرو مجھے بانہوں میں بھر لو مجھے پیار کرو وہ اکتا کے کہتا ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔۔

میں اتنے دور سے ایسے کیسے کر سکتا ہوں تب مجھے اُس پہ بہت غصہ آتا اور لڑاٸی ہو جاتی اور میں کہتی کہ کل تک تم یہ سب دور سے کر سکتے تھے ۔۔۔

ویڈیوکال پہ تم مجھے اپنے پاس محسوس کرواتے تھے میرا جسم تمہیں اچھا لگتا تھا میرا جسم چومتے نہیں تھکتے تھے اب کہتے ہو میں دور سے یہ کیسے کر سکتا ہوں ۔۔
لیکن وہ ٹال دیتا۔۔
اب میری طبیعت میں چڑ چڑا پن آ گیا تھا
ہر وقت ہمارے درمیان لڑاٸی رہنے لگی۔۔۔
اور پھر کچھ دن بعد توصیف نے  آٸی ڈی بند کر دی۔۔۔

میں نے بار بار توصیف  سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مسلسل آف لاٸن تھا۔۔۔
میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اور ہر وقت لیٹی رہتی۔۔
مجھے سمجھ  نہیں آ رہا  تھا کیا کروں  کیسے جیوؤں اس کےبنا۔۔۔
مجھے اِس طرح اپ سیٹ اور پریشان دیکھ کے میری ایک  روم میٹ نے بہت ہمدرری جتاٸی اور مجھ سے پریشانی کی وجہ  پوچھی۔۔۔





   23
0 Comments